Title | : | Women, War, and the Making of Bangladesh: Remembering 1971 |
Author | : | |
Rating | : | |
ISBN | : | 0822350386 |
ISBN-10 | : | 9780822350385 |
Language | : | English |
Format Type | : | Paperback |
Number of Pages | : | 336 |
Publication | : | First published July 1, 2011 |
Awards | : | Oral History Association Book Award (2013) |
Women, War, and the Making of Bangladesh: Remembering 1971 Reviews
-
This is a very difficult book, but a very important one nonetheless. It's gripping, devastating, and compelling. The author quotes some of my favorite critical theorists and uses their ideas to frame her telling of the accounts of men and women in the war of 1971.
This book is very, very difficult. It is not easy to read. Please know what you are getting into when you read it. It may very well be triggering to some. Be aware of that.
I came away with many feelings after reading this, the strongest one being disgust for my culture - although I'm "West" Pakistani, and our culture is a little different than that of the Biharis and Bengalis, etc. But I came away with strong feelings of disgust for my patriarchal culture, which shames the victims and casts them aside, saying that rape is a woman's fault, a rape victim is fallen, and deviant, and nothing more than a prostitute.
Disgusted. Rape is never the victim's fault.
Reading this work was a transformative experience - one that I'm not sure I'd repeat. But this was an important text to read, and I'm glad to have read it for that. -
This is an absolutely well written book and brings out a fresh approach on the war and conflict of 1971. It sheds light on state narratives of India, Pakistan and Bangladesh that only construct history that is relevant to their side. It brings out accounts and testimonies of sexual assault survivors and the experiences of women in general; both Bengali and Bihari. This is the kind of humanistic approach we need when looking at such wars and conflicts that deal with the complexity in such situations.
-
Very moving and difficult read. More an anthropological monograph of violent times rather than a sequential history book delineating particular incidents or places.
-
پاکستان میں 1970 کے انتخابات کے بعد فوجی حکومت نے اقتدار طے شدہ طریقے کے مطابق اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو نہیں دیا۔ اس رویّے کے خلاف مشرقی حصے میں احتجاج شروع ہوا جسے دبانے کے لیے انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی سیاسی پارٹی کی ملی بھگت سے، اضافی فوجی قوت بھیج کر آپریشن کیا گیا۔ بالکل اُسی طرح جیسے نوآبادکار نوآبادیات کی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ یہ پس منظر ایک الگ تفصیل اور بحث کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن پوری ایک جنگ تھی جو برائے نام مسلح یا نہتے مقامی لوگوں کے خلاف ایسی غیرمقامی فوج کر رہی تھی جو پوری طرح مسلح تھی اور اس میں اُسے اس سیاسی جماعت اور گروہوں کی حمایت بھی حاصل تھی جنھیں پورے مشرقی حصے کی حمایت حاصل کرنے والی پارٹی سے بہت ہی بری شکست ہوئی تھی۔ اس جنگ کو 1971 کی جنگ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ میں آخر مغربی پاکستان کی فوج کو شکست ہوئی۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس جنگ میں ہندستان کی فوجی مداخلت بھی ایک اہم عنصر تھی۔ اسی ہندستانی فوج کے سامنے پاکستان کے لگ بھگ ایک لاکھ فوجیوں اور افسروں نے ہتھیار ڈالے اور جنگی قیدی بنے۔
اس جنگ کے بارے میں طویل عرصے تک صرف ایسی تفصیلات سامنے آتی رہیں جو یک طرفہ ہوتی تھی۔ بنگالی اگر اس جنگ میں، جس کے لیے وہ جد وجہد آزادی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، اپنی فتح، معربی پاکستانی فوج کی شرمناک شکست اور قربانیاں دینے والے جنگی شہیدوں کے گن گاتے ہیں تو مغربی پاکستانی، جو جنگ کے بعد صرف پاکستانی رہ گئے، اصل اسباب کو چھوڑ کر، ایک ایسی جنگ کی بات کرتے ہیں جس میں ان کی فوج کو مقامی آبادی کی مخالفت کا سامنا تھا اور جس پر انھوں نے کم و بیش قابو پالیا تھا لیکن ہندستان مداخلت کی، جس کا سامنا کرنے کے لیے وہ تیار نہیں تھے، اور انھیں شکست سے دوچار کر دیا۔
’عورتیں، جنگ اور قیامِ بنگلہ دیش‘ کی مصنفہ یاسمین سائیکیا جنگ کو محض اس طرح نہیں دیکھتیں جیسے اسے ایک قوم کی اجتماعی یادداشت میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ وہ اسے ان لوگوں کی نظر سے بھی دیکھتی ہیں جو انفرادی طور پر جنگ میں رونما ہونے والے ہمہ رخی تشدد کا نشانہ بنے، خاص طور پر عورتیں اور اپنا دفاع نہ کر سکنے والے وہ شہری جن کے سیاسی عزائم بھی نہیں ہوتے اور جو قوم پرستی کے نام پر ابھرنے والی اس حیوانیت کا نشانہ بنتے ہیں جس کا کوئی اصول اور ضابطہ نہیں ہوتا۔
یاسمین نے شاید اسی حیوانیت یا یاسمین کے الفاظ میں غیرانسانیت کو دکھانے کے لیے 1971 کی جنگ اور اس کے بعد کے حالات کا انتخاب کیا ہے، جس کے نتیجے میں 1947 کے بعد برصغیر کی دوسری بڑی تقسیم ہوئی اور بنگلہ دیش وجود میں آیا۔
لیکن یہ کتاب اس تنازع کے چالیس سال آئی ہے اور اس کی تحقیق اور تیاری میں بھی یاسمین کو کئی سال لگے ہیں یعنی اس کی تحقیق انھوں نے اتنے عرصے بعد شروع کی جب بیشتر حقائق کے ثبوت مٹ چکے ہوں گے، بہت سی یادوں کے زخم بھر چکے ہوں گے اور بہت سے لوگ اپنی اذیتوں کو فراموش کرنے میں بھی کامیاب ہو چکے ہوں گے۔ یعنی یہ اس تشدد کے شعلے نہیں ہیں بلکہ اس کی راکھ میں دبی ہوئی اور شاید بجھتی ہوئی چنگاریاں ہیں۔
لیکن اس کے باوجود یاسمین ایسے لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں جن کے بیانات جنگ اور قوم پرستی کے وحشیانہ پن کو بے نقاب کرتے ہیں۔
ان کی اس کتاب سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اس جنگ میں شریک پاکستانی اور ہندستانی ہی نہیں جنگِ آزادی کے بنگالی مجاہد بھی سب سے کمزور، سب سے نہتے اور کسی بھی طرح جنگ کے نتیجے پر اثر انداز نہ ہونے والے گروہ یعنی عورتوں پر ظلم میں دوسروں سے پیچھے نہیں تھے اور انھوں نے بھی ان کمزور شہریوں کی زندگیوں کو جنگ کا میدان ہی سمجھا تھا۔
قومی آزادی یا سماجی و سیاسی برابری یا کچھ اور، جنگ کسی بھی نام پر لڑی جائے، اس میں سب سے زیادہ اذیت یہی گروہ یعنی عورتیں اٹھاتی ہیں اور جنگ کی فتح اور شکستوں کی جتنی تاریخیں لکھی جاتی ہیں ان میں اِس بےبس گروہ کا کہیں کوئی ذکر نہیں آتا۔ جنگوں اور اس طرح کی لڑائیوں کا سب سے بڑا غیر انسانی پہلو یہی ہے کہ ان میں عورتوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا۔
یاسمین سائیکیا نے پہلی بار اس سنگین پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے اور مورخوں اور ان کے تصوراتِ تاریخ پر سوال اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ میں اس نوع کے تشدد کی بےشمار سطحیں ہیں اور ہم ان کے بارے بہت ہی کم جانتے ہیں‘۔ اور اس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کہ ’بنگلہ دیش اور ہندستان میں صرف آزادی اور فتحمندی کے کامیاب بیانیے بار بار لکھے گئے ہیں اور صرف انھیں ہی جنگ کی تاریخ تصور کیا جاتا ہے‘۔ جب کہ ان کی مطابق ’حقیقت یہ ہے کہ تشدد میں تمام ہی گروپ شریکِ جرم تھے‘۔
اس کے علاوہ اس کتاب میں مذکورہ تشدد کا نشانہ بننے والی ان عورتوں کے انٹرویو بھی ہیں جو صرف بنگالی نہیں، وہ بھی ہیں، جنھیں بہاری کہا جاتا تھا اور ہے۔ اور یہ انٹرویو یاسمین کے موقف کی بنیاد ہیں۔ یہی بات اس کتاب کو اہم اور مطالعے کے لیے ناگزیر بناتی ہے۔
یاسمین سائیکیا، اریزونا سٹیٹ یونیورسٹی تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ وہ اس کے علاوہ بھی کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ہندستان میں حاصل کی۔ -
Initially felt a sense of author questioning the importance of liberation for Bangladesh but later in the book was able to gain several different perspectives. The humanist emphasis did throw me off every so often but I can see how it aided the book in terms of neutrality,
-
its an amazing book